606

اپنے ہی ہاتھوں لائی ہوئی ماحولیاتی تباہی سے انسانی زندگی خطرئے میں


اپنے ہی ہاتھوں لائی ہوئی ماحولیاتی تباہی سے انسانی زندگی خطرئے میں
اقوام متحدہ کی یہ رپورٹ میں 1500 سے زائد ریسرچ مقالے شامل ہیں جو کرہ ارض کے سب سے بڑے تخریبی مجرم ’حضرت انسان‘ کے خلاف ایک مکمل چارج شیٹ ہے
پیرس: ۔بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق پیرس میں حیاتی تنوع سے متعلق ہونے والی سمٹ میں 1800 صفحات پر مشتمل رپورٹ کو حتمی شکل دی جا رہی ہے، رپورٹ کے چند اقتباسات منظر عام پر آئے ہیں جن میں ماحولیات کے حوالے سے ہولناک انکشافات کیے گئے ہیں۔اقوام متحدہ کی یہ رپورٹ میں 1500 سے زائد ریسرچ مقالے شامل ہیں جو کرہ ارض کے سب سے بڑے تخریبی مجرم ’حضرت انسان‘ کے خلاف ایک مکمل چارج شیٹ ہے۔اقوام متحدہ نے ماحولیات سے متعلق اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ انسانی مداخلتوں اور کارستانیوں کے باعث فطرت موت کے دہانے پر پہنچ گئی ہے.
50 برسوں میں انسانوں کی آبادی دگنی ہوگئی ہے اور معدومی کے شکار جنگلی اور سمندری حیات کی فہرست میں اضافہ ہو رہا ہے۔انسان ماضی کے مقابلے اب 90 فیصد اضافے کے ساتھ فطرت کے 60 ارب ٹن وسائل استعمال کر رہا ہے اور جواب میں ہر سال 400 ملین ٹن بھاری، زہریلا اور مضر صحت مواد سمندر اور دریاؤں میں پھینک رہا ہے۔ انسانی گرین ہاؤسز ( کھیتی باڑی) سے خارج ہونے والی گیس گلوبل ٹمپریچر میں 7. 0 سینٹی گریڈ درجہ حرارت اضافہ کررہی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انسانی ہاتھ 70 فیصد زمینی علاقے، 40 فیصد سمندری اور 50 فیصد دریاؤں کو آلودہ کرچکے ہیں اور یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے اور انسان خود اپنی موت کی جانب بڑھ رہا ہے۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ماہی گیری کی بڑی صنعتیں سمندری حیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہی ہیں۔ 70 ہزار سے زائد بحری جہاز دنیا کے 55 فیصد سمندروں کا سینہ چیرتے اور مچھلیوں کا شکار کرتے ماحولیاتی عدم توازن پیدا کر رہے ہیں۔زراعت میں 75 فیصد تازہ پانی استعمال ہو رہا ہے جب کہ ان کھیتوں میں استعمال ہونے والی کیمیکل اور کھاد سے اُٹھنے والی گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ اپنی ہلاکتوں کا منہ کھولے ہوئے ہے۔ انسان کائنات کی سب سے بھوکی مخلوق ثابت ہورہی ہے۔رپورٹ میں معاشی عدم توازن کو بھی ماحولیاتی بگاڑ کا بڑا سبب بتایا گیا ہے، دنیا کے چند بڑے اور امیر ممالک زیادہ تر وسائل پر قابض ہیں اور فطرت سے سب سے زیادہ مستفید بھی یہی طبقہ ہو رہا ہے اس کے برعکس غریب ممالک کے لیے قدرت کے یہ مفت فطری وسائل پہنچ سے بہت دور ہیں۔