626

ہفت روزہ سکول لائف کے زیر اہتمام ”مناسب آبادی صحت مند معاشرہ “ کے موضوع پر سیمنار کا انعقاد


رپورٹ :ڈاکٹر عبدالباسط
ترتیب و تحقیق ضمیر آفاقی
فوٹو گرافی: تنویر احمد
ہفت روزہ سکول لائف کے زیر اہتمام ”مناسب آبادی صحت مند معاشرہ “ کے موضوع پر سیمنار کا انعقاد
بڑھتی ہوئی آبادی کو مستقبل کا خطرہ قرار دیتے ہوئے مقررین نے حکومت عوام اور معاشرے کو تعلیم یافتہ بنانے پر زور دیا
ہم ہر سال تیس لاکھ بچے پیدا کرنے والا ملک بن چکے ہیں جبکہ 2050 تک ہماری آبادی ڈبل ہو جائے گی،ہم نے آبادی کے بڑھنے پر توجہ نہ دی تو آنے والے دنوں میںمذید مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں،عبدالباسط خان
صحت مند معاشرے کے لئے صحت مند ماں کو ہونا بہت ضروری ہے اس کے لئے اسے اچھا ماحول تعلیم اور تربیت کی بہت ضرورت ہے ،مریم ارشد
ہمیں عوامی شعور کا اجاگر کرنے کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ لوگ حکومت سے اپنے مسائل کے حل کے لئے سوال کر سکیں،ڈاکٹر اویس فاروقی
آبادی کا اژدھا ہے جو ہمیں نگل رہا ہے ہمارے تمام وسائل کو کھا رہا ہے ، جہاں غربت زیادہ ہے اور تعلیم کم ہے وہاں بچے اور جہالت بھی زیادہ ہے، عامر وحید چوہدری
ہم نے بچوں کو پیدواری لیبر ہی بنانا ہے تو پھر کسی شعور اورگاہی کی ضرورت نہیں لیکن اگر ہم نے اسے ایک اچھا انسان بنانا ہے تو بچے کی تعلیم و تربیت کے ساتھ،صحت اور بہترین ماحول بھی فراہم کرنا ہے،ضیغم عباس مظہر
باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ اس مسلے کے حل کی طرف جانا چاہیے آبادی کے مسلے کو حل کرنے کے لئے علماءکرام کا بڑا کردار ہے انہیں ساتھ لیکر اس کا حل نکالنا چاہیے ، صاحبزادہ امانت رسول
آسٹریلیا دنیا کا پانچواں بڑا بر اعظم ہے مگر اس کی آبادی صرف تین کروڑ ہے اور خوشحال ہے، ہمیں اپنے روئیوں میں تبدیلی لا کر مسائل کا حل کر سکتے ہیں، ارشد نسیم بٹ
تعلیم کی کمی آبادی میں اضافے کا ایک بڑا سبب ہے اس لئے ہمیںاپنی تعلیم پر فوکس کر نا چاہے، حنیف انجم
پاکستان صحت کے مسائل کے حوالے سے بہت بری صورت حال کا شکار ہے اس کی ایک وجہ غربت ہے جو آبادی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، ڈاکٹر غلام یاسٰین
ہمیں آج کے جو نوجوان پر وقت انویسٹ کرنا ہو گا کیونکہ آج نوجوان آبادی کا آدھا حصہ ہیں اس لئے اگر ہم انہیں ایجوکیٹ کرنے میں کامیاب ہو گئے توآبادی بڑھنے کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے ان میں ہم کمی لا سکیں گے، ڈاکٹر طاریق شریف زادہ
ہفت روزہ” سکول لائف “کے زیر اہتمام ”مناسب آبادی صحت مند معاشرہ “ کے عنوان سے ای لائبریری لاہور کے آڈیٹوریم میں سیمنار کا انعقاد کیا گیا جس میں معز ز مہمانان گرامی جن میں معروف دانشور کالم نگار اور سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر (نپ) عبدالباسط خان،ہیڈ آف ای لائبریری آصف بلال، ڈائریکٹر لیبر پنجاب ضیغم عباس مظہر، کالم نگار مریم ارشد، پرنسپل وومن ڈگری کالج رائے ونڈ ڈاکٹر راشدہ قریشی، ماہر تعلیم و کالم نگار حنیف انجم، ماہر بلڈ کینسر و امور صحت عامہ ہو میو ڈاکٹر غلام یاسٰین، چئیر مین فوکس پاکستان ڈاکٹر اویس فاروقی، ادارہ فکر جدید کے ڈائریکٹر صاحبزادہ امانت رسول، پاک آسٹریلیا فرینڈ شپ کے چئیر مین ارشد نسیم بٹ، دینی سکالر ڈاکٹر طارق شریف زادہ، پنجاب علماءبورڈ کے صدر اے آر رحمن، رائٹر و سماجی شخصیت عامر وحید چوہدری، معروف موٹیویشنل ٹرینر ڈاکٹر راشد محمود نے موضوع کی مناسبت سے خیالات کا اظہار کیا جبکہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں سے کثیر تعداد نے شرکت کی ، دانشوروں میں نمایاں نام عمر فاروقی ، مظہر چوہدری ، ڈاکٹر الیاس ، عمراں یوسف ، عبداللہ فرحان شامل تھے۔
تقریب کا باقائدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا تلاوت کا شرف ایک ننھی طالبہ نیلم فاطمہ اور نعت رسول مقبول کی سعادت علی حسین کے حصے میں آئی جبکہ نظامت کے فرائض معروف موٹویشنل سپیکر ماہر تعلیم اور ریکی ماسٹر یو ایس ائے ڈاکٹر راشد محمود اور سدرہ اعظم نے بڑی خوبصورتی سے ادا کئے۔بعد ازاں تمام قابل احترام مقررین نے ”مناسب آبادی صحت مند“ کے عنوان سے منعقدہ اس سیمنار کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے اسے ہفت روزہ سکول لائف کی کوشش کو نہ صرف سراہا بلکہ اس طرح کے عوامی مسائل پر سیمنارز ورکشاپ کے انعقاد کو جاری رکھنے کی ضروت پر زور دیتے ہوئے اپنے ہر طرح کے تعاون کا یقین بھی دلایا ۔
اس موقع پر معروف دانشور کالم نگار اور سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن سٹڈیز (نپس) عبدالباسط خان نے بہت ہی پر اثر معلومات سے لبیریز موجودہ وقت اور حالات کے تناظر میں آبادی کے بڑھنے اور اس کے اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے اس کا حل بھی پیش کیا، انہوں نے کہا کہ نو عمری کی شادیاں ، پولی گیمی شادیاں بھی آبادی بڑھنے کی ایک وجہ ہے اور بیٹا حاصل کرنے کی خاطر ہم کئی بچے حاصل کر لیتے ہیں ہمیں اس سوچ کو بھی بدلنا ہو گا ، بچیاں خدا کی نعمت اور رحمت ہیں ہمیں ان کی پرورش پر زیادہ توجہ دینی ہوگی۔ اس ضمن میں انہوں چائنہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں چائنہ سے سیکھنا چاہیے کہ اس نے اپنے ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی پر کیسے قابو پایا ہمارے ہمسایہ ملک ایران میں شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی کی کونسلنگ کی جاتی ہے، انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے اپنی آبادی کے بڑھنے پر توجہ نہ دی تو ہم آنے والے دنوں میںمذید مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہم ہر سال تیس لاکھ بچے پیدا کرنے والا ملک بن چکے ہیں جبکہ 2050 تک ہماری آبادی ڈبل ہو جائے گی ، دیہات سے شہروں کی طرف آبادی کی ہجرت سے بھی کئی طرح کے سماجی و نفسیاتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ عبدالباسط خان نے تجاویز دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں سکول و کالجز لیول تک بچوں اور بچیوں کو ایجوکیٹ کریں تاکہ وہ شعوری طور پر اپنا اچھا اور برا سوچ سکیں۔
انہوں نے کہا کہ کچھ عرصہ پیشتر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے آبادی کے مسلے پر ایک سپوزیم کا انعقاد کرایا تھا جس میں پرائم منسٹر عمران خان چیف گیسٹ تھے جبکہ معروف عالم دین مولانا طارق جمیل نے خطاب کرتے ہوئے آبادی میں اضافے کے مسائل اجاگر کئے تھے جس سے امید پیدا ہوئی تھی کہ حکومت اس مسلے پر سنجیدہ ہے لیکن اس کے بعد اس مسلے پر پھر ہر طرف خاموشی ہے۔ ضرورت اس مر کی ہے کہ ہمیں اپنے مسائل کا دراک کرتے ہوئے اس پر حکومتی سطع پر قانون سازی کرتے ہوئے عوامی شعور کو جگانا ہو گا تاکہ ہم آبادی صحت جیسے مسلوں کا ادراک کر کے ان سے نمبردآزما ہو سکیں باسط خان نے میڈیا پر بھی زور دیتے ہوئے کہا کہ اس ضمن میں میڈیا کو بھی اپنا کرداد ادا کرنا ہوگا کہ وہ اس مسلے کی سنگینی کا حساس کرتے ہوئے اسے اجاگر کرئے۔
ہیڈ آف ای لائبریری آصف بلال نے ای لائبریری کے اغراض مقاصد پر روشنی ڈالنے کے ساتھ تمام حاضرین کو ای لائبریری کی مفت ممبر شپ کی آفر کی ۔
میڈیم مریم ارشد نے آبادی کے بڑھنے کو ایک بڑا مسلہ قرار دیتے ہوئے ارباب بست کشاد کو اسے حل کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ جہاں چھوٹی عمر کی شادیاں بہت بڑا مسلہ ہیں وہیں عورت کو تعلیم یافتہ بنانا بہت ضروری ہے تاکہ وہ شعوری طور پر اپنے فیصلے کر سکے کیا اچھا ہے ہے کہا برا ہے جان سکے کیونکہ کم عمری میں بچوں کی پیدائش سے جہاں عورت کی صحت متاثر ہوتی ہے وہیں بچے بھی کمزور اور لاغر پیدا پوتے ہیں جو بڑئے ہو کر کئی طرح کی پیچیدگیوں کا شکار ہوتے ہیں صحت مند معاشرے کے لئے صحت مند ماں کو ہونا بہت ضروری ہے اس کے لئے اسے اچھا ماحول تعلیم اور تربیت کی بہت ضرورت ہے۔
چیئر مین فوکس پاکستان ڈاکٹر اویس فاروقی نے کہا کہ ہم ہر سال سیمینار اور مزاکرے کرتے ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم عورت کو بھی تعلیم یافتہ کریں میں نے خود سیمینار اور مزاکرے بہت کئے ہیں لیکن اصل بات عمل کی ہے جس پر ہم توجہ نہیں دیتے، ہمیں خاندانی طور پر بھی عوام کو ایجوکیٹ کرنا ہو گا انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے مسائل کے حل کے لئے خود ہی کچھ کرنا ہو گا بیس سال تو مجھے بھی دیکھتے ہو گئے ہیں لیکن حکومتی سطع پر کچھ نہیں ہوتا ہمیں عوامی شعور کا اجاگر کرنے کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ لوگ حکومت سے اپنے مسائل کے حل کے لئے سوال کر سکیں۔
ؑعامر وحید چوہدری نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ آبادی کا اژدھا ہے جو ہمیں نگل رہا ہے ہمارے تمام وسائل کو کھا رہا ہے اس مسلے سے نبٹنے کے لئے ہمیں ہم سب کو مل کر کوشش کرنی ہو گی ، انہوں نے کہا کہ جہاں غربت زیادہ ہے اور تعلیم کم ہے وہاں بچے اور جہالت بھی زیادہ ہے۔
ریجنل ڈائریکٹر لیبر ڈیپارٹمنٹ پنجاب ضیغم عباس مظہر نے کہا کہ مجھے چائلڈ لیبر کے خلاف جنگ کرتے ہوئے نصف صدی کے قریب ہو گئی ہیں میں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ محکمہ پاپولیشن ویلیفئر کو اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بچہ کیوں پیدا کرنا چاہتے ہیں اس سوال کا جواب بھی ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر تو ہم نے اسے پیدواری لیبر ہی بنانا ہے تو پھر کسی شعور اورگاہی کی ضرورت نہیں لیکن اگر ہم نے اسے ایک اچھا انسان بنانا ہے تو پھر ہمیں بچے کی تعلیم و تربیت کے ساتھ،صحت اور بہترین ماحول بھی فراہم کرنا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ مناسب آبادی ہو اور وسائل سب میں مساوی تقسیم ہوں۔اس کے لئے ہمیں لوگوں کو ایجوکیٹ کرنا ہے انہیں شعور دینا ہے تاکہ وہ ہر کام سوچ سمجھ کر کر سکیں۔ ہم معاشرے میں رہتے ہیں ہم نے ملکر رہنا ہے لہذا ہماری زمہ داری ہے کہ ہم سب ملکر اپنا اپنا کردار ادا کریں۔
معروف دینی سکالر ادارہ فکر جدید کے بانی صاحبزادہ امانت رسول نے اپنے خیالات کاا ظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج سٹرکچر اور کیمونیکیشن گیپ ہمارا سب سے بڑا مسلہ ہے ۔مذہبی آدمی کا سب سے بڑا مسلہ یہ ہے کہ وہ ہر کام کو مغربی ایجنڈا قرار دے کر اس کی مخالفت کر دیتا ہے شائد یہی وجہ ہے کہ آج عوامی شعور انسانی حقوق اور عوامی مسائل کو اجاگر کرنے والی بے شمار این جی اوز کو بند کر دیا گیا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں باہمی افہام و تفہیم سے اس مسلے کے بھی حل کی طرف جانا چاہیے آبادی کے مسلے کو حل کرنے کے لئے علماءکرام کا بڑا کردار ہے انہیں ساتھ لیکر اور اس پر مل بیٹھ کر سوچ بچار کرتے ہوئے اس کا حل نکالنا چاہیے انہوں نے کہا نہ یہ مسلہ مذہبی ہے اور نہ سیاسی اسے عورت اور مرد پر چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ اپنے حالات کے مطابق یہ فیصلہ کریں کہ انہیں کتنے بچے پیدا کرنے چاہیے۔
چئیر مین پاک آسٹریلیا ارشد نسیم بٹ نے کہا کہ آسٹریلیا پانچواں بڑا بر اعظم ہے مگر اس کی آبادی صرف تین کروڑ ہے اور خوشحال ہے، انہوں نے کہا کہ ہمیں نظریہ ضرورت سے احتراز کرنا چاہیے،ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم نظام کو ٹھیک کریںم مذہبی روئیوں کو ٹھیک کریں اپنے سماجی روئیوں کو ٹھیک کریں اور معاشرتی روئیوں میں تبدیلی لائیں کسی بھی مسلے کا حل ہمارے پاس موجود ہوتا ہے لیکن ہم اپنے باہمی تنازعات میں الجھ کر اسے حل نہیں کر پاتے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے مسائل کو مسلہ جانتے ہوئے ان کے حل کی طرف جائیں تبھی مسائل حل ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے والدین کی بات ماننی چاہیے ان سے سیکھنا چاہیے شادیاں بھی والدین کی رضا مندی سے کرنی چاہیں۔
ماہر تعلیم کالم نگار و دانشور حنیف انجم نے اپنے خیالات کا ظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج کی گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ آبادی زیادہ ہے اور وسائل کم ہیں جبکہ ناخواندگی ہمارا بہت بڑا المیہ ہے آپ دیکھیں کہ آبادی بڑھانے میں میں بھی ان پڑھ اور کم تعلیم یافتہ لوگ آگے ہیں، جبکہ پڑھے لکھے اس ضمن میں اس بات کا ضرورخیال رکھتے ہیں کہ کتنے بچے ہونے چاہیے اور بچہ کب لینا چاہیے۔ تعلیم کی کمی آبادی میں اضافے کا سبب ہے اس لئے ہمیںاپنی تعلیم پر فوکس کرتے نا چاہے تاکہ لوگوں میں اس بات کا شعور اجاگر ہو کہ ہمیں اپنے مسائل کیسے حل کرنے ہیں جن میں سے ایک بڑا مسلہ آبادی کا بھی ہے۔
پرنسپل وومن ڈگری کالج رائے ونڈ ڈاکٹر راشدہ قریشی نے اپنے خیالات کا ظہار کرتے ہوئے آبادی میں اضافے کو خیر قرار دیتے ہوئے اسے خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ جتنے زیادہ بہن بھائی ہوں گے اتنا ہی ایک دوسرے کا خیال رکھیں گے آج خواتین کی آبادی کا تناسب مردوں کی نسبت زیادہ ہے۔ ہمیں اعتدال کا راستہ اپنانا چاہیے اور اپنے روئیوں پر غور کرتے ہوئے خود کو درست کرنا چاہیے انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ آبادی کو کم نہیں وسائل میں اضافہ کیا جائے۔
سحر ویلفیئر فانڈیشن کے بانی اور گولڈ میڈلسٹ معروف ہومیو ڈاکٹرغلام یسین جو بلڈ کینسر جیسے موذی اور تھیلسیمیا کی سولہ اقسام کے مرض میں مبتلا بچوں کے علاج معالجے میں شہرت رکھتے ہیں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آبادی میں اضافہ اپنی جگہ ایک مسلہ ہے لیکن اس کے ساتھ اس ملک کا سب سے بڑا مسلہ معیاری صحت کا فقدان بھی ہے جس کے لئے پہلا کام تو میعاری تعلیم کا ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ ایک تعلیم یافتہ انسان ہی اپنے مسائل کا صیح معنوں میں ادراک کر سکتا ہے اور اس کا حل بھی تلاش کر سکتا ہے انہوں نے بتایا کہ پاکستان صحت کے مسائل کے حوالے سے بہت بری صورت حال کا شکار ہے اس کی ایک وجہ غربت ہے جو آبادی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ۔پاکستان میں حالیہ برسوں میں بچوں میں کینسر کے امراض میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس میں بلڈ کینسر نمایاں ہے یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اس بیماری کا شکار زیادہ تر بچے غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہر سال بلڈ کینسر کے ہزاروں نئے کیس تشخیص ہو رہے ہیں زندگی کی خواہش رکھنے والی یہ معصوم زندگیاں، زندگی کو ترس رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بلڈ کینسر کے شکار بچوں کا علاج اب ممکن ہے جس کا تجربہ انہوں نے اپنے بیٹے پر کیا ہے۔دو ہزار آٹھ میں ان کے اپنے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جو اکثر بیمار رہنے لگا اسے جب چلڈرن ہسپتال لے جایا گیا تو ڈاکٹروں نے اس کے مختلف ٹیسٹ کرنے کے بعد بتایا کہ اسے سرخ خلیے(بلڈ کینسر) کا کینسر ہے یہ سنانے کے بعد ہماری تو زمین پاوں سے نکل گئی کہ چند ماہ کا بچہ اور کتنی بڑی بیماری کا شکار ہو گیا ہے ہمارے لئے یہ بہت پریشانی کی بات تھی چلڈرن ہسپتال میں اس کا اعلاج چار ماہ جاری رہا ڈاکٹروں کا یہ کہنا تھا کہ اس بیماری کا بچہ کبھی بچا نہیں آپ دعا کریں اور یوں انہوں نے میرے بیٹے کو لا علاج قرار دے کر بچے کو گھر بھیج دیا۔ڈاکٹر غلام یاسین نے اس ضمن میں بات کرتے ہوئے مذید حیرت انگیز تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ بچے کو گھر لانے کے بعد میں نے اللہ کے بھروسے پر خود اس کا اعلاج شروع کر دیا تقریباً آٹھ نو ماہ کے علاج کے بعد بچہ بتدریج تندرست ہونے لگا اور یوں یہ معجزہ رونما ہوا کہ آج وہ بچہ نہ صرف زندہ ہے بلکہ تندرست تعلیم بھی حاصل کر رہا ہے ہر سال پہلی پوزیشن حاصل کرتا ہے اس وقت وہ گیارہ سال کا ہے اور نارمل زندگی گزار رہا ہے۔ڈاکٹر غلام ےاسین نے اسی دن سے تہیہ کر لیا کہ میرے بچے کی طرح اس بیماری کے شکار دوسرئے بچوں کی زندگی بچانی ہے جس کے لئے انہوں نے کہا کہ میں نے بلڈ کینسر کے شکار بچوں کے لئے اکتیس جنوری دو ہزار گیارہ میں اپنے ہی کلینک سے ملحقہ جگہ پر پہلا فری کمیپ لگایا جس میں سولہ کے قریب بچے رجسٹر ہوئے جن کا علاج شروع کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ دو ہزار گیارہ سے لیکر اب تک ایک سو دس) 110) کیمپ لگا چکے ہیں ہامرے پاس اس وقت 1000 کے قریب بچے رجسٹر ہو چکے ہیں جن کا اعلاج جاری ہے جن میں کئی صحت مند زندگی گزر رہے ہیں جس کی پوری دنیا میں کوئی دوسری مثال موجود نہیں ہے اس لئے ہمیں ہم سب کو مل جل کر کام کرنا ہو گا تب ہی صحت اور آبادی جیسے مسائل پر قابو پاسکیں گے۔
مفتی ائے آر رحمن نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کثرت اولاد ور مال کی وجہ سے ہم اہنے رب اور دین سے دورر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب مائیں بچوں کو دوسال دودھ پلائیں تو بچوں میں خود بخود تین سال کا وقفہ پیدا ہو جاتا ہے جس سے بچہ اور ماں دونوں صحت مند رہتے ہیں۔ جبکہ میڈیکل سائنس بھی تین سے پانچ سال کا وقفہ ڈالنے کو کہتی ہے انہوں نے کہا پاکستان میںدوران ولادت ہر بیس منٹ بعد ایک بچے کی ہلاکت لمحہ فکریہ ہے جس پر ہمیں غور کرنا ہو گا ماں اور بچے کی بہتر صحت تعلیم اور تربیت کے لئے ہمیں مناسب آبادی کے لئے سوچنا ہو گا ۔
معروف دینی و صوفی سکالر ڈاکٹر طارق شریف زادہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ایسا سلگتا ہوا موضوع ہے جس پر جتنی بھی بات کی جائے کم ہے ڈاکٹر شریف زادہ نے آبادی کے مسلے کو تعلیم کی کمی سے جوڑتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاں تعلیم کی کمی بھی آبادی میں اضافے کا سبب ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہم مل کر عوام کو ایجو کیٹ کریں اور انہیں اس مسلے کی سنگینی کا احساس دلائیں انہوں نے کہا کہ آج جو نوجوان ہےں ہمیں ان پر وقت انویسٹ کرنا ہو گا انہیں اس مسلے کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنی ہو گی کیونکہ آج نوجوان آبادی کا آدھا حصہ ہیں اس لئے اگر ہم انہیں ایجوکیٹ کرنے میں کامیاب ہو گئے توآبادی بڑھنے کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے ان میں ہم کمی لا سکیں گے۔ اس کے ساتھ ہی ا نہوں اس بات پر بھی زور دیا کہ آبادی کے مسلے کو موثر طور پر اجاگر کرنے کے لئے علماءکرام کو ساتھ ملانا ہو گا کیونکہ ان کی آواز ہر گھر تک پہنچتی ہے ۔ڈاکٹر طارق شریف زادہ نے یہ بھی کہا کہ ہمیں ہر بات میں یہودیوں کی سازش تلاش نہیں کرنی چاہیے مسائل ہمارے پیدا کردہ ہیں انہیں حل کرنے کے لئے ہمیں خود اقدمات اٹھانے ہوں گے جبکہ جدید تعلیم اور سائنسی علوم بھی ہمارے لئے ممدو معاون ہوسکتے ہیں انہوں نے یہ بھی کہا اس ضمن میں میڈیا کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ پروگرام کے آخر میں سوال و جواب کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔