705

’میری سکول لائف“ کے مہمان سی سی پی او لاہور جناب بی اے ناصر کی” سکول لائف“کی خوبصورت یادیں کچھ باتیں

گفتگو: ضمیر آفاقی
عکاسی:فیصل بابر

آج کل تعلیم پر تو بہت زور ہے لیکن تربیت کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی ،بی اے ناصر
۔۔۔۔۔۔

میں سمجھتا ہوں یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اخلاقی تعلیم اور تربیت پر توجہ دیں سچ کیا اور جھوٹ کیا ہے کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرنی کسی کا حق نہیں مارنا جیسی سماجی برائیوں اور بنیادی قدروں کے حوالے سے والدین ہی بچوں کی راہنمائی کر سکتے ہیں اس پر بحیثیت معاشرہ ہمیں بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
جب میں نے سی ایس ایس کیا تو اس وقت میرے ساتھ سی ایس ایس کرنےوالے پچانوے فیصد گورنمنٹ سکولوں سے پڑھے ہوئے لڑکے شامل تھے اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ ا سوقت معیار تعلیم کیسا تھا،یہ کوئی سو سال پہلے کی نہیں صرف چالیس سال پہلے کی بات ہے

ہم ان استادوں سے پڑھے ہیں جن کی اپنے شاگردوں کے ساتھ کمٹمنٹ تھی پر خلوص رشتہ تھا محبت تھی ہمیں وہ آج بھی یاد ہیں وہ پرائمری،سکول کالج کسی بھی سطع کے ہیں ہم ان کا احترام کرتے ہیں اور ان سے ملتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کامیابی کی کنجی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے جناب بی اے ناصر نے آج کے طلباءو طالبات کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ مقابلے کی اس دنیا میں وہی لوگ کامیاب ہو سکتے ہیں جو اپنی صلاحیتیوں کو منوانا جانتے ہیں کام کو اوڑھنا بچھونا بنا لیں کامیابی آپ کے قدم چومے گی والدین کا احترام اور اطاعت کریں اپنی بنیادی قدروں کی پہچان کریں اور ان پر عمل کریں یقیناً کامیابی آپ کے قدم چومے گی
،،،،،،،،،
’’میری سکول لائف“ کے مہمان سی سی پی او لاہور جناب بی اے ناصرکی سکول لائف کی خوبصورت یادیں کچھ باتیں
گجرات پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شمال میں واقع ہے، یہ شہر مشہور شاہراجی ٹی روڈ پر واقع ہے۔ اس ضلع کی تین تحصیلیں گجرات کھاریاں اور سرائے عالمگیر ہیں۔گجرات دریائے چناب کے کنارے آباد ہے۔ لاہور سے 120 کلومیٹر جنوب میں ہے۔ آس پاس کے مشہور شہروں میں وزیرآباد، گوجرانوالہ، لالہ موسیٰ، جہلم، کوٹلہ، منڈی بہاوالدین اور آزاد کشمیر شامل ہیں۔ شہر سینکڑوں دیہاتوں میں گھِرا ہوا ہے۔ جہاں سے لوگ کام کاج کے لیے شہر کا رخ کرتے ہیں۔ ضلع گجرات کے زیادہ تر لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں۔یہ قدیمی شہر دریائے جہلم اور دریائے چناب کے درمیان واقع ہے۔ اسی وجہ سے یہاں کی زمین بہت ذرخیز ہے، زیادہ تر گندم، گنے اور چاول کی کاشت کے لیے موزوں ہے۔ ضلع گجرات کا رقبہ تقریباً 3192 مربع کلومیٹر ہے اور یہ تین تحصیلوں،جن میں تحصیل گجرات، کھاریاں اور سرائے عالمگیر شامل ہیںایسی کئی تاریخی عمارتیں اور باقیات کھنڈروں کی شکل میں گجرات کے آس پاس موجود ہیں۔ یہاں کے زیادہ تر لوگ گجر آرائیں مہر ،جٹ وڑائچ ہیں۔ اس شہر کی وجہ شہرت اس ضلع کے تین فوجی جوان نشان حیدر حاصل کر چکے ہیں۔ جن میں راجہ عزیز بھٹی،میجر شبیر شریف شہید اور میجر محمد اکرم شہید شامل ہیں۔ جبکہ سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کا تعلق بھی گجرات سے ہی ہے۔ پاکستان کے مشہور سیاست دانوں چوہدری ظہور الٰہی ،فضل الہی چوہدری(سابق صدر پاکستان) چوہدری شجاعت حسین (سابق وزیر اعظم،سربراہ مسلم لیگ ق) ,چوہدری پرویز الٰہی (سابق وزیر اعلی اور حال سپیکر پنجاب اسمبلی،مسلم لیگ ق) چوہدری احمد مختار(پی پی پی) قمر زمان کائرہ(پی پی پی) چوھدری عابد رضا کوٹلہ (مسلم لیگ ن) کا تعلق اسی ضلع سے ہے۔۔
سی سی پی او لاہور بے اے ناصر پنجاب کے اسی مشہور ضلع سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ یوں تو بے اے ناصر بہت کم گو ہیں۔ میڈیا سے بات چیت اپنے پروفیشن کے حوالے سے ہی کرتے ہیں نمودو نمائش سے دور بھاگتے ہیں طبیت میں عاجزی اور انکساری پائی جاتی ہے ہر آنے جانے والے کو عزت و احترام دیتے ہیں ان کا دفتر ہر سائل کے لئے کھلا ملتا ہے اپنے ماتحتوں سے مشفقانہ رویہ رکھتے ہیں جبکہ ان کی صلاحیتوں کا اعتراف دنیا نے بھی کیا ہے کیونکہ جب سے یہ لاہور میں بطور سی سی پی او تعینات ہوئے ہیں لاہور میں جرائم کی شرع میں واضع کمی واقع ہوئی ہے۔
ہفت روزہ سکول لائف نے جناب بی اے ناصر سے ان کی ”سکول لائف“کے حوالے سے ہلکی پھلکی گفتگو کی جو ہمارے آج کے طلباءو طالبات کے لئے مشعل راہ ہے
اس بار ”سکول لائف“ کے معروف اور سب سے پسندیدہ سلسلے ”میری سکول لائف“ کے مہمان ہیں ”سکول لائف“ نے جناب بے اے ناصر کی ابتدائی زندگی”سکول لائف“ یعنی انسان کی سب سے خوبصورت لائف جس میں انسان مستقبل کے سہانے خواب بنتا ہی نہیں بلکہ ان تعبیر بھی دیکھتا ہے نئے دوست بنتے ہیں نئی راہیں تلاش کی جاتیں ہیں والدین کی خواہشوں کی تکمیل اور اپنے خوابوں کو عملی جامعہ پہنانے کے لئے عزم جوان ہوتا ہے، سیکھنے سکھانے کے وافر مواقع میسر آتے ہیں استائذہ اس کی راہنمائی کا فریضہ سر انجام دینے کے لئے موجود ہوتے ہیں۔
جناب بے ناصر کی اس خوبصورت لائف کو جاننے کے لئے ان کے بے پناہ مصروف وقت میں سے چند لمحے حاصل کئے اور ان لمحوں کا حاصل مطالعہ آج کے طلباءو طالبات کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ تاکہ آج کا طالبعلم یہ جان سکے کے والدین کی خواہشوں اور خوابوں کی تکمیل ہو یا آپ کے اپنی آرزوں امنگوں اور مستقبل کے سہانے خوابوں کی تعبیر اسے پانے کے لئے کیا کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں ”سکول لائف“ ہر شمارئے میں ایسی نابغہ روزگار ہستیوں کی” سکول لائف“ کیسے گزری اور اس لائف کو کیسا پایا کیا حاصل کیا کون سے دوست بنے استائذہ کیسے تھے اور آپ کی زندگیوں میں اس کے اثرات کیا مرتب ہوئے سامنے لاتا ہے تاکہ ہمارئے آج کے طالبعلموں کو ان کی زندگیوں کو مشعل راہ بنا کر آگے بڑھنے اور کچھ حاصل کرنے اور کامیابی حاصل کرنے کے لئے راہ نشان مل سکے۔
بے اے ناصر بلا شبہ ہمارے طالبعلوں کے لئے” ہیرو“ ہیں جنہوں نے صرف اور صرف اپنی محنت اور عزم کے بل بوتے پر آج یہ مقام حاصل کیا ہے جس کا اس ملک کے لاکھوں نوجوان خواب دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خوابوں کو حقیقت کا رنگ دینے کے لئے صرف اور صرف انتھک محنت اور اپنے ہدف پر توجہ ہی واحد راستہ ہے جس پر چلنے والے کم ہی ناکام ہوتے ہیں۔زندگی میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا کامیابی حاصل کرنے کے لئے دشوار گزار گھاٹیاں عبور کرنے پڑتی ہیں۔
آپ نے گورنمٹ ہائی سکول دولت نگر ضلع گجرات تحصیل کھاریاں سے 1979میں میٹرک کیا، ایف ایس سی فیڈرل گورنمنٹ سر سید کالج راولپنڈی سے کی،گورنمنٹ کالج لاہور سے بی ایس سی کی اور تعلیم کا یہ سلسلہ آگے بڑھتا گیا جبکہ سی ایس ایس کے امتحان میں آپ نے نمایاں پوزیشن حاصل کی اور یوں یہ پولیس سروس میںآگئے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں خدمات سر انجام دے چکے ہیں آپ باکمال اور اعلیٰ صلاحتیوں کے حامل آفیسر ہیں۔
اپنے سکول و کالج کی یادیں تازہ کرتے ہوئے انہوں بتایا کہ سکول ہو یا کالج کے استائذہ جس نے بھی آپ کو ایک لفظ بھی سکھایا ہو وہ قابل احترام ہونا چاہیے ہم ڈنڈے والے سکولوں کے پڑھے ہوئے ہیں اس لیے ہمارے دور میں عزت و احترام کا رشتہ بہت مظبوط تھا، پرائمری سکول میں میرے اپنے ماموں ہیڈ ماسٹر تھے اور ہائی سکول میں بھی میرے ماموں سینئر ٹیچر تھے،ان حالات میں ڈر اور خوف ویسے ہی زیادہ ہوتا تھا ان کا نام خالد حسین تھا اور وہ پرائمری سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے ایک اور استاد محمد صادق تھے، ہوتا یہ تھا کہ دوسروں کو اگر ایک ڈنڈہ پڑتا تو مجھے دو ڈنڈے پڑتے اور ہوتا بھی ایسا ہی تھا اقراباءپروری نہیں تھی میںانہی کے ساتھ بیٹھ کر گھر آتا سکول میں وہ ٹیچر تھے ماموں گھر پر ، پڑھائی پر فوکس ہوتا اس لئے اس وقت کا میعار تعلیم بھی اچھا تھا،اس وقت کے استائذہ کرام میں بہت سارے نام ہیں جو میرے لئے سب کے سب قابل احترام ہیں تیس چالیس سال ہو گئے ہیں ایف سی کئے ہوئے ان استائذہ کرام میں سے جو حیات ہیں ابھی بھی میرا ان کے ساتھ ادب و احترام کا رشتہ ہے اور رابطہ رہتا ہے میں ان سے ملتا ہوں فون کرتا ہوں یہ سب میرے محسن ہیں انہی کی وجہ سے آج میں اس مقام پر ہوں ۔ ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر ڈاکٹر شفیق خیال صاحب تھے بہت ہی نفیس خوش لباس حالانکہ بس پر آتے تھے لیکن خوش ذوق اتنے تھے کہ ٹائی لگا کر گجرات سے دولت نگر پڑھانے آتے تھے۔ ہمارا سکول اس علاقے کا ایک اچھا سکول سمجھا جاتا تھا اچھا ماحول تھا سب سے بڑھ کر پیار محبت کے رشتے بہت مظبوط تھے۔ہمارے گاوں کا جو سکول تھا اس وقت سرگودھا بورڈ ،گوجرنوالہ بورڈ، اور راولپنڈی بورڈ کے تحت آتا تھا اس وقت ان تینوں کو ملا کر ایک ہی بورڈ تھا، ہمارا سکول یوں تو ایک قصبے میں تھا لیکن یہاں کا معیار تعلیم بہت اچھا اور اعلیٰ تھا اس سکول کے بچے ہمیشہ ٹاپ کرتے تھے ایک لڑکا شہباز انور جو ہمارے ٹیچر کا بیٹا تھا اس نے ٹاپ کیا تھا ،میں بھی اپنے سکول میں ٹاپر تھا۔
آپ اندزہ لگائیں جب میں نے سی ایس ایس کیا تو اس وقت میرے ساتھ سی ایس ایس کرنےوالے پچانوے فیصد گورنمنٹ سکولوں سے پڑھے ہوئے لڑکے شامل تھے اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ ا سوقت معیار تعلیم کیسا تھا،یہ کوئی سو سال پہلے کی نہیں صرف چالیس سال پہلے کی بات ہے اس وقت کوئی بہت زیادہ سہولتیں نہیں تھی لیکن تمام کے تمام استائذہ کرام مخلص ،محبت کرنے والے اور اپنے طلباءکے مستقبل کے لئے فکر مند رہنے والے تھے اب تو حالات بہت مختلف ہیں بے شمار سہولتیں میسرہونے کے باوجود تعلیمی میعار وہ نہیں جو ا سوقت تھا۔ ہم جب سی ایس ایس کر رہے تھے تو ہمیں لائبریری جانا پڑتا تھا ایک کتاب سے صرف دس صفحے فوٹو کاپی کرانے کی اجازت تھی لیکن آج لیپ ٹاپ پر دنیا جہاں کی کتابیں اور علم موجود ہے۔ہم ان سہولیات سے محروم تھے اس وقت میعار تھا آج اتنی زیادہ سہولتیں میسر ہیں نالج بڑھا ہے لیکن اخلاقیات کا فقدان ہے۔
ان سے پوچھا گیا کیا آپ کے دور میں ٹیوشن یا اکیڈیمی کا وجود تھا؟ کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے دور میں ایسا کچھ نہیں تھا ہم نے کبھی ٹیوشن نہیں پڑھی اس کی وجہ اس وقت کے ہمارے استائذہ کرام تھے اگر کوئی مسلہ ہوتا تو وہ ہمیں زیادہ وقت دیتے، یہ غالباً انیس سوچوراسی، پچاسی کی بات ہے اس زمانے میں ٹیویشن کا کام شروع ہو گیا تھا۔ جب میں گورنمنٹ کالج میں آیا تو ا سوقت ہمارے ایک استاد جواد صاحب تھے جوپاکستانی فلموں کے نامور اداکار بابر کے والد گرامی تھے بڑئے مخلص شفیق محبت کرنے والے وہ ہمیں پڑھاتے تھے ،میرا ایک دوست تھا ہم ان کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ سر ہم ایک سبجیکٹ میں کمزور ہیں کیونکہ میں یہاں مائیگریٹ ہو کر آیا تھا اور تین چار مہینے لیٹ تھا ان سے اپنا مسلہ بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ گھر آجاو یوں ہم ان کے گھر جا کر پڑھنے لگے وہ ہمیں پڑھاتے چائے پلاتے کوئی مہینہ ڈیڑھ گزر گیا تو ہم نے کچھ جرات کی اور ایک لفافے میں کچھ پیسے ڈال کر انہیں دینے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا یہ کیا ہے ہم نے کہا سر یہ کچھ پیسے ہیں، انہوں نے بڑی حیرت اور استجاب سے تھوڑا غصے سے پوچھا پیسے؟ پیسے کس بات کے؟ ہماری تو سانس خشک ہوگئی اور ہم نے ہکلاتے ہوئے کہا کہ سر وہ آپ کا وقت اور ۔۔اور کیا؟ کہنے لگے تم میرے شاگرد ہو اور یہ میرا فرض ہے اگر تمہارے اندر کوئی کمی رہ گئی ہے تو اسے دور کرنا میرا فرض ہر اور فرض کے کیسے پیسے جواد صاحب فوت ہوچکے ہیں خدا انہیں غریق رحمت کرئے آمین۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم ان استادوں سے پڑھے ہیں جن کی اپنے شاگردوں کے ساتھ کمٹمنٹ تھی پر خلوص رشتہ تھا محبت تھی ہمیں وہ آج بھی یاد ہیں وہ پرائمری،سکول کالج کسی بھی سطع کے ہیں ہم ان کا احترام کرتے ہیں اور ان سے ملتے ہیں ۔میں یہاں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ اگر آپ نے دنیا میں کچھ حاصل کرنا ہے تو اپنے ٹیچرز اور والدین کے عزت و احترام اور طاعت میں کمی کبھی نہ آنے دیں۔
جناب بے اے ناصر سے پوچھا گیا کہ آپ اپنے سکول و کالج لائف کے دوست احباب کے بارے کچھ بتائیے جس کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا سکول و کالج فیلوز میں سے کوئی ڈاکٹر بنا کوئی انجینئر کوئی باہر کے ملک چلا گیا کچھ کے ساتھ رابطے موجود ہیں اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے۔
جناب بے ائے ناصر سے اس وقت اور آج کے دور کے تعلیمی نظام کا موازنہ کرنا ہو تو ہم کس دور کو بہتر کہہ سکتے ہیں؟ جس پر انتہائی مختصر بات کرتے ہوئے انہوں کہا کہ اس کا جواب تو کوئی ماہر تعلیم ہی دے سکتا لیکن میں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ جن اخلاقی قدروں کی آپ کے گھر میں آبیاری کی جاتی جن بنیادی اخلاقی اصولوں کی تعلیم آپ کو گھر سے ملتی ہے جو پند و نصائح آپ کو گھر سے ملتے ہیں یہ پوری زندگی آپ کا حاطہ کرتے ہیں اور دوسری بات جسے ون پوائنٹ میں اگر بیان کیا جائے تو آج کل تعلیم پر تو بہت زور ہے لیکن تربیت کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی میں سمجھتا ہوں یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اخلاقی تعلیم اور تربیت پر توجہ دیں سچ کیا اور جھوٹ کیا ہے کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرنی کسی کا حق نہیں مارنا جیسی سماجی برائیوں اور بنیادی قدروں کے حوالے سے والدین ہی بچوں کی راہنمائی کر سکتے ہیں اس پر بحیثیت معاشرہ ہمیں بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
نمبر گیم جس نے بچوں کی حالت غیر کر رکھی کے بارے آپ کیا کہیں گے؟ کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہمارے زمانے میں بھی اچھے نمبر لینے کے لئے جد وجہد کی جاتی تھی اچھے نمبر والوں کے اچھے کالجز وغیرہ میں آسانی سے داخلہ مل جاتا تھا اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ تعلیمی میدان میں آپ کو انتھک محنت کرنی چاہیے پھر ہی آپ کوئی اعلیٰ مقام حاصل کر سکتے ہیں۔
کامیابی کی کنجی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے جناب بے اے ناصر نے آج کے طباءو طالبات کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ مقابلے کی اس دنیا میں وہی لوگ کامیاب ہو سکتے ہیں جو اپنی صلاحیتیوں کو منوانا جانتے ہیں اس ضمن آپ کے ذہن میں سب سے پہلے واضع ٹارگٹ ہونا چاہیے کہ آپ نے کرنا کیا ہے کس شعبے میں جانا ہے، جب آپ اپنا ٹارگٹ واضع طور پر منتخب کر لیتے ہو تو پھر دن رات صرف محنت کے ساتھ اپنے ٹارگٹ پر نظر رکھیں اچھے استاد کی راہنمائی لیں ان کی عزت کریں” با ادب با مراد والے محاورے پر عمل کریں“ جو استاد کہے اس پر عمل کریں آپ کی تمام تر توجہ اپنی تعلیم اور ٹارگٹ پر ہونی چاہے اپنے کام کو اوڑھنا بچھونا بنا لیں کامیابی آپ کے قدم چومے گی والدین کا احترام اور اطاعت کریں اپنی بنیادی قدروں کی پہچان کریں اور ان پر عمل کریں یقیناً کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔
حرف آخر میری ”سکول لائف“ کے مہمانوں کی زندگیاں ہمارے آج کے طلبا و طالبات کے لئے اس لئے بھی مشعل راہ ہونی چاہیے کہ یہ نفوس اپنے مقصد میں واضع انتھک محنت اور بہت سارے نشیب فراز کے بعد اس مقام پر پہنچے ہیں اس لئے زندگی میں کامیابی اور آگے بڑھنے کے لئے کوئی شارٹ کٹ نہیں صرف محنت اور محنت کے ساتھ واضع ہدف ہی آپ کو کامیاب و کامران کر سکتا ہے۔